Monday 11 July 2016

سراپا آفت دل بود

سراپا آفت دل بود

میرا نام راجیو ہے اور میں اتر پردیش کا نواسی ہوں. دکھنے میں کسرتی مگر چھریرے شریر کا مالک ہوں. اور میرے پریوار میں ماں پتا جی اور بہن ہے.

یہ کہانی میری چچیری بھابھی سے متعلق ہے. ان کی عمر ٣٢ سال ہے وہ کافی بھرے ہوئے شریر والی ہیں. رنگ گورا اور ناپ ٣٤۔٣٢۔٣٦ ہے . ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے . بات ٢ سال پہلے کی ہے. جب میں بی۔کام کی پڑھائی کر رہا تھا. اس سمے میں ١٩ سال کا تھا. گرمیوں کے دن تھے. بھائی باہر ملازمت کرتے تھے اور گھر ٦ مہینے میں آتے تھے.

تب تک میرے من میں ان کے لئے کوئی غلط جذبات نہیں تھے. اندھیرا ہوتے ہی میں ان کے گھر گیا. رات کو کھانا وغیرہ کھا کے ٹیلیوژن دیکھنے لگے. بچے پڑھائی کر کے سو گئے. بھابھی کے کمرے میں ایک ایک بچوں کے بستر کے علاوہ ایک فاضل پلنگ تھا. بچے بستر پہ سو گئے اور میں پلنگ پہ جا کے لیٹ گیا. اب بھابھی بولیں میں کہاں سوؤں. میں نے کہا کسی ایک بچے کو میرے پاس سلا دو. آپ وہاں سو جاؤ. بھابھی نے کہا کہ سو رہے ہیں بےکار میں روئیں گے. تو میں نے کہا میرے پاس آ جاؤ میں پیروں کی طرف سو جاؤں گا. وہ مان گئیں.

اور وہ اپنی ساری اتارنے لگیں. میری نظر ان کے پیٹ پر پڑی. اف ان کی نابھی دیکھ کے میں دنگ رہ گیا. گورے پیٹ پہ ایک دم گہری نابھی. مجھے من کیا کہ جا کے ان کا پیٹ چاٹ لوں. لیکن اپنے آپے میں رہا اور وہ لیٹ گئیں. میں ان کے پیروں کی طرف منہ کر کے لیٹ گیا.

تھوڑی دیر بات کرتے کرتے مجھے نیند آنے لگی. تبھی بھابھی نے اپنے پیر سے میرا گال سہلایا. ایک دم گرم اور نرم تھا ان کا پیر. پھر اپنے پیر کے انگوٹھے سے میرے ہونٹوں کو سہلانے لگیں تو میں نے اسے منہ میں بھر لیا. پھر وہ بولیں میری طرف آؤ. میں ان کی طرف گیا اور ان کے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کے لیٹ گیا. وہ بولیں راجیو تم اپنی بھابھی کو پیار نہیں کرتے. میں نے کہا میں تو آپ کو بہت پیار کرتا ہوں. تو وہ بولیں کہ میرے لئے کیا کر سکتے ہو. میں نے کہا جو آپ بولو. تو وہ بولیں کہ آج کی رات مجھے اپنی معشوقہ سمجھ کے پیار کرو. اور میرے ہونٹوں پے اپنے ہونٹ رکھ دیے.

وہ بھابھی جنہیں میں اپنی ماں مانتا تھا آج وہ میرے اتنے قریب تھیں کہ میں خود کو روک نہیں پایا اور ان کی کمر پکڑ کے ان کے ہونٹ چوسنے لگا. وہ میرا ساتھ دینے لگیں اور میں ان کی گانڈ پے ہاتھ پھرانے لگا. انہوں نے اپنی جیبھ میرے منہ میں ڈال دی اور میں ان کا میٹھا رس پینے لگا.

پھر انہوں نے مجھے اپنے سے الگ کیا اور میری قمیص کھول کے میری چھاتی چومنے لگیں. میرا پیٹ چاٹنے لگیں اور میری پتلون کھول دی. میرا لنڈ ایک دم تنا کھڑا تھا. انہوں نے جھٹ سے میرا لنڈ ہاتھ میں لے کے بولیں تمہارا لنڈ تو بہت پیارا ہے. بالکل کنوارا. میں نے کہا شاید یہ میری بھابھی کے لئے بنا ہے. اور وہ جھٹ سے میرا لنڈ منہ میں بھر کے چوسنے لگیں. کتنا مزا تھا اس پل میں جب وہ پورا لنڈ منہ میں لے کے آگے پیچھے کر رہی تھیں. تو میں تو گویا جنت میں تھا بھابھی میری پیاری بھابھی سسکاریاں بھر رہی تھیں. اسے جی بھر کے چوس کے انہوں نے منہ سے نکالا اور دیکھا وہ ایک دم کھڑا انہیں سلامی دے رہا تھا. بھابھی نے اسے چوم کے سہلایا اور اوپر آ کے میرے ہونٹ چوسنے لگیں.

پھر میں نے بھابھی کو لٹایا اور ان کے پیٹ پہ منہ رکھ کے چاٹنے لگا. جب میری جیبھ لپلپا رہی تھی تو بھابھی کے منہ سے سسکاری نکلی وہ میرے بالوں کو سہلانے لگیں اور بولیں ہائے میرا بچہ، آج اپنی بھابھی کو پیار کر رہا ہے. پھر ان کی نابھی میں جیبھ ڈال کے چاٹنے لگا. بہت مزا آ رہا تھا انہیں. پھر میں نے ان کی چولی کھولا. واہ کتنے کڑک پستان تھے ان کے جو انگیا پھاڑنے کو تیار تھے. میں نے انہیں آزاد کیا. ایک دم دودھیا پستان اور ان کے بھورے رنگ کے چوچک. انہوں نے میرا سر پکڑ کے اپنے پستان پے دبا لیا اور بولیں ہائے راجیو پی جاؤ انہیں آج چوس ڈالو اپنی بھابھی کو. میں نے ایک پستان منہ میں بھر کے چوسنا شروع کیا.

ہائے رام میرا بیٹا میرا راجہ بیٹا. بھابھی کی ممتا مجھ پر برس رہی تھی جس سے میرا جوش دگنا ہو رہا تھا. اچھی طرح سے ان کے پستان چوسنے کے بعد میں نیچے بڑھا. میں نے ان کا سایہ کھول دیا. اب وہ صرف سیاہ چڈی میں تھیں. میں نے چڈی اتارنی چاہی پر انہوں نے روک کے کہا راجیو ادھر نہیں پیچھے کرو. ان کا اشارہ گانڈ کی طرف تھا. وہ الٹا لیٹ گئیں میں ان کی کمر چاٹنے لگا. نیچے آ کے ان کی چڈی نیچے کی. واہ اتنے گول گول مانسل چوتڑ تھے ان کے. ایک دم نرم. میں نے ان کے چوتڑ چاٹنے شروع کیے تو وہ کتیا بن گئیں اور ان کی پیاری سی گانڈ میرے منہ کے سامنے تھی. بولیں راجیو بیٹا آج تم صرف اسی کے حق دار ہو. چوت کا سؤاد پھر کبھی. میں تھوڑا اداس ہؤا لیکن انہوں نے کہا بیٹا جب میں اتنا کر سکتی ہوں تو چوت بھی دے سکتی ہوں.

میں ان کی بات سمجھ کے ان کی پیاری سی گانڈ کو چاٹنے لگا.. بہت سؤادشت گانڈ تھی ان کی. ایک دم مہک رہی تھی. ان کے چھید کو جیبھ سے چاٹنے لگا. ہاں مادر چود جلدی سے چاٹو اسے. تمہارے بھائی نے کبھی نہیں کیا ایسا. میں اچھے سے چاٹنے لگا بھابھی کی گانڈ کو. بولیں بیٹا اب رہا نہیں جا رہا اب اپنی بھابھی کی گانڈ کی موری کھول دو. پھر انہوں نے ویسلین میرے لنڈ پہ لگایا اور میں نے ان کی گانڈ کے چھید میں انگلی ڈال کے اندر تک لے گیا. وہ چہک پڑیں انگلی ڈالتے ہی.. ہائے مادر چود راجیو.. پھر وہ گانڈ اٹھا کے کتیا بن گئیں . میں نے آسن جما کے ان کی گانڈ پے اپنے لنڈ رگڑا. چھید پہ نشانہ لگا کے زور کا دھکا مارا.. واہ مادر چود۔ یہ لے بھونسڑی والی ہم دونوں ہی چیخ پڑے میرے لنڈ کی کھال چھل گئی تھی اور ان کی گانڈ میں لنڈ آدھا گھس گیا تھا. اور ان کی آنکھوں سے آنسو آ گئے.

میں نے کہا بھابھی آپ کو درد ہو رہا ہے لنڈ نکالوں. وہ بولیں راجیو اس درد کے لئے کب سے تڑپ رہی تھی میں. جب تک میری گانڈ نہ پھٹ جائے تب تک مجھے چودتے رہو. پھر میں نے تھوڑا رک کے زور سے دھکا مارا اور پورا لنڈ گھسیڑ دیا. واہ میرے کتے۔ یہ تو نے کہاں سے سیکھا؟ .. بھابھی بولیں. میرے لنڈ کی کھال پھٹنے کی وجہ سے خون نکلنے لگا تھا. شاید ان کی گانڈ سے بھی. میں نے بنا رکے دھکے لگانے چالو کیے .. ہائے کتنا مزا آ رہا تھا اور بھابھی چلا رہی تھیں آج پھٹی ہے میری گانڈ۔ راجیو مر گئی۔ اوئی ماں اور زور سے اور گانڈ اٹھا اٹھا کے چدنے لگیں. میں نے ان کے پستان دبانے چالو کیے اور دھکے لگاتا رہا. اور لگ بھگ ١٥ منٹ بعد میں نے رفتار اور تیز کی کیونکہ میں جھڑنے والا تھا. ہائے بھابھی اب تو میں گیا اور جھٹکے مارتے مارتے میں ان کی گانڈ میں جھڑ گیا اور ان سے زور سے لپٹ کے ان کے اوپر لیٹ گیا.. کچھ دیر بعد گانڈ سے لنڈ نکالا تو اس پر تھوڑی سی ٹٹی لگی ہوئی تھی.

بھابھی نے لنڈ ایسے ہی منہ میں بھر لیا اور چوس چوس کے صاف کر دیا. اور پھر میرے ہونٹوں کو چوسنے لگیں. ان کے نمکین ہونٹ جن میں شاید ان کی ٹٹی کا سؤاد آ رہا تھا انہیں چوسنے لگا.

پھر مجھے اپنے سینے سے لگا کے پوچھا کہ کیسا لگا. میں نے کہا آپ کے پیار میں مجھے جنت کا مزا مل گیا ماتا جی. ماتا جی سنتے ہی انہوں نے میرا بیٹا کہہ کے اپنے سینے سے لگا لیا. اور اس کے بعد مجھے ١ ہفتہ بعد ان کے چوت کا مزا ملا. لیکن باقی کہانی پھر کبھی.. بتاؤ دوستو.. کیسی لگی کہانی؟.. کیا آپ کی بھی کوئی ایسی بھابھی ہیں؟..

No comments:

Post a Comment