Showing posts with label پڑوسن. Show all posts
Showing posts with label پڑوسن. Show all posts

Monday, 11 July 2016

ایسا نصیب کس کا

ایسا نصیب کس کا

نمستے دوستو۔ میرا نام راکیش ہے.میں ایک ٢٦ سالہ اعلی تعلیم یافتہ اور غیر شادی شدہ گھبرو جوان ہوں۔ میرا قد ٥ فٹ ٩ انچ ہے۔ .میری یہ سچی کہانی شاید اور کہانیوں سے ہٹ کر ہے.آج سے ٢٠ دن پہلے میں گھر پہ اپنی تیاری میں مصروف تھا.اکیلا تھا میں شاید سب سے ہٹ کر ہے...آج سے ٢٠ دن پہلے میں گھر پہ اپنی تیاری میں مصروف تھا.اکیلا تھا میں میرے گھر کے بالکل سامنے ایک سندھی پریوار رہتا ہے.ان کے یہاں ٣ لڑکیاں ببلی ٢٥,سریتا ٢٣,راکھی ٢٢ ہیں .اس دن وہ گھر میں اکیلی تھیں.ان کے گھر والے ایک دن کے لئے باہر گئے تھے.شام کو ٧ بجے میں کوٹھے پہ تھا تو وہ ببلی مجھے ترچھی نظر سے دیکھ رہی تھی.میں سمجھ نہیں پایا.میں نہیں جانتا تھا کہ ان سب کی پہلے سے کیا منصوبہ بندی تھی .وہ جانتی تھیں میں بھی اکیلا ہوں گھر پہ.
اس نے مجھے آواز دی راکیش ذرا ہمارے گھر پے آؤ گے?ہمارے کمپیوٹر میں کچھ خرابی ہے براہ مہربانی اسے ٹھیک کر جاؤ.
میں بولا آتا ہوں.میں نے چڈا پہنا ہؤا تھا .میں ان کے گھر پہنچا تو سریتا فون پہ بات کر رہی تھی.میں اندر کمپیوٹر والے کمرے میں جا کر اس کا معائنہ لگا.وہ باہر تھی.اتنے میں گھنٹی بجی اور ٤ لڑکیاں جن کے نام مینا,منجو,شاردا,پنکی تھے اندر آئیں .سریتا نے دونوں پھاٹک بند کر لیے. وہ سب آپس میں سندھی بھاشا میں بات کر رہی تھیں.میں سمجھ نہیں پا رہا تھا.میں جس کمرے میں تھا وہ دالان نما تھا کیونکہ غسلخانے الگ تھے.تبھی وہ سب جو ٧ تھیں میرے پاس آ گئیں.اور اندر سے تالا لگا لیا.
چابی سریتا نے اپنی چڈی میں ڈال لی.ببلی بولی "راکیش اگر تم باہر جانا چاہتے ہو تو چابی نکا ل لو لیکن ہم تمہیں جانے نہیں دیں گے.
میں سکپکا گیا.
وہ پھر بولی آج تمہیں ہم سب کے ساتھ کھیلنا ہے.
میں نے کہا یہ غلط ہے.
تو وہ بولی اگر تم اپنی عزت چاہتے ہو تو چپ رہو ورنہ چلا کر باہر سب کو بتا دوں گی کہ تم میری عزت لوٹنے آئے ہو.
میں گھبرا گیا.تبھی پنکی نے کمپیوٹر پہ ننگی فلم چلا دی.میں نے کہا مجھے جانے دو.لیکن وہ سب ہنسنے لگیں .اور کھیلنے لگیں .منجو نے اپنے سارے کپڑے اتار دیے.وہ پنکی کو ننگا کرنے لگی.تبھی ببلی نے میرے آگے اپنی گانڈ کر کے اپنی شلوار نکال دی.ان سب کا ناپ لگ بھگ پستان ٣٢۔٣٦,کمر ٣٠۔٢٦ اور گانڈ ٣٢۔٣٨ تھیں .میں حیران تھا.وہ آپس میں مجھے دیکھ کر مستی کر رہی تھیں.پنکی اور منجو ایک دوسرے کی چوت میں انگلی ڈال رہی تھیں اور بوسے بازی کر رہی تھیں .شاردا سریتا کی چوچیاں دبا رہی تھی.میں بستر پہ ان سب کے بیچ تھا.میں بھی اتجت ہو گیا.میرا لنڈ چڈے کو پھاڑ کر باہر آنا چاہتا تھا.تبھی ببلی نے میرا چڈا کہینچ دیا اور میرا ساڑھے آٹھ انچ کا لنڈ آزاد ہو گیا.وہ میرے اوپر آ گئی اور میرے ہونٹ چوسنے لگی.میں بھی اس کے رس کو پینے لگا لیکن میں جانا چاہتا تھا.
میں نے کہا ببلی مجھے جانے دو 
تو وہ بولی کتنے دن سے ہماری نظر تجھ پر تھی آج جانے نہیں دیں گے رات بھر.اور وہ بولی تیرا ہتھیار تو مست ہے رے.آج تو سب کی پیاس بجھ جائے گی
مینا کی گانڈ موٹی تھی اور کمر پتلی.مینا بولی لے چل شربت پلا.
اور وہ میرے لنڈ کو چوسنے لگی.اور اپنی چوت میرے منہ پہ رکھ دی.اس کی چوت گیلی تھی اور اس میں مادک خوشبو آ رہی تھی.ببلی بولی چاٹ مینا کی چوت ورنہ.میں اس کی چوت میں جیبھ ڈالنے لگا.
وہ سسکاری بھرنے لگی.اوئی..ماں..چاٹ میرے راجہ..واہ بہن چود واہ..اور میرا لنڈ چوس رہی تھی کیسا لگا سؤاد؟
 اتنے میں پنکی میرے منہ کے پاس بیٹھ گئی اور مینا کی گانڈ میں انگلی کرنے لگی .وہ انگلی کو اندر تک ڈال کے باہر نکالتی اور انگلی چاٹنے لگتی.ببلی بھی اب پنکی کی چوت گانڈ چاٹنے لگی.پنکی مینا کی گانڈ چاٹ رہی تھی.بیچ میں مجھے چوم بھی لیتی .میں گھبرانے لگا.تبھی شاردا وہاں آئی اور ببلی سے کچھ سندھی میں بولی تو اس نے جواب دیا کرو نا مزا آئے گا
.اور شاردا سنداس میں گئی کچھ دیر بعد آئی اس کے ہاتھ میں ایک کوزہ تھا اس میں کچھ ہلکا پیلا پانی تھا.اس نے گلاس لیا اور بھر کر ببلی کو دیا وہ پینے لگی.میں نے پوچھا یہ کیا ہے تو وہ بولی یہ شاردا کا پیشاب ہے.واہ مزا آ گیا.
پھر اس نے راکھی سے کہا کہ رسی لاؤ تو وہ لے آئی. اب اس نے میرے ہاتھ پیچھے کمر پہ باندھے اور پیر باندھ دیے.
میں بولا مت کرو ایسا میرے ساتھ.
وہ بولی چپ رہو 
اب مینا راکھی ببلی اور سریتا نے مجھے اٹھا لیا اور سنداس میں لے گئیں.مجھے لٹا دیا.باقی تینوں پنکی شاردا منجو بھی آ گئیں.
اب ببلی نے کہا منہ کھولو 
میں نے کہا نہیں تو وہ لنڈ کو منہ میں لے کر کاٹنے لگی میں چلایا نہیں چھوڑ دو مجھے.لیکن وہ نہیں مانی اور مجھے دھمکی دی.میں نے منہ کھول لیا.سب سے پہلے راکھی آئی اور اپنی گانڈ میرے منہ میں لگا دی 
اور مینا بولی چاٹ اسے میں اس کی گانڈ چاٹنے لگا.اس کی گانڈ موٹی اور مست تھی.چکنی تھی.سوراخ میں جیبھ ڈال کر میں چاٹنے لگا. اس کی گانڈ میں عجیب سا نمکین سؤاد اور مہک آ رہی تھی.وہ میرا لنڈ چوسنے لگی.میں اس کی گانڈ لپر لپر چاٹ رہا تھا 
وہ بولی کہ چاٹو کھا جاؤ میرے راجہ بہت مزا آئے گا .اچانک اس نے اپنی چوت میرے منہ پہ کر کے تیز دھار سے پیشاب کرنا شروع کیا. چھرر..چھرر..میرا منہ بھر گیا.
میں پینے لگا.اس کا سؤاد عجیب تھا.پھر وہ ہٹ گئی.اب مینا آئی اور گانڈ چٹوانے لگی.پھر لگی پھر اس نے بھی میرے منہ میں پیشاب کیا پھر پنکی آئی اس نے بھی اپنی گانڈ کا سؤاد چکھایا اور موت پلایا.پھر شاردا نے پلایا سریتا کے ہاتھ میں ایک چاکلیٹ تھی اس نے اسے اپنی گانڈ میں پھنسا لیا اور پھر میرے منہ میں زور لگا کر چھوڑا مجھے کھانا پڑا میں کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا اب منجو جو ان سب میں سب سے مست تھی نے اپنی گانڈ کو چٹوایا اور اپنا موت پلایا.پھر ببلی نے. اب مینا میرے لنڈ پہ بیٹھ گئی میرا لنڈ پورا اس کی چوت میں چلا گیا وہ اچھل کر چدوا رہی تھی اور میں کراہ رہا تھا جب ببلی کی میں چاٹ رہا تھا.وہ کچھ بک رہی تھی ہائے راجہ چاٹ میری پھدی.اچانک اس نے اپنے پیر سمیٹ کر پانی چھوڑ دیا میں اس کو پی گیا. وہ اٹھی اور پنکی آئی میں اس کی چوت چاٹی اور پانی پیا.ببلی نے میری ٹانگیں اوپر اٹھائیں اور میری گانڈ چاٹنے لگی.میں اتیجنا کے ساگر میں تھا اب میرے سامنے سریتا کی جھانٹوں والی چوت تھی.اس طرح اس دن سب نے مجھ سے چدوایا.مجھے گانڈ چوت چٹوائی مجھے پیشاب پلایا اور چوت کا رس بھی.سب کی چدائی کرنے تک میں ٤ بار جھڑا میری چاروں بار کی ملائی ببلی نے جمع کی تھی ایک رکابی میں.اب میرے ہاتھ کھولے گئے اور وہ ساتوں میرے لنڈ کی ملائی رکابی سے انگلی بھر کے چاٹ رہی تھی..
صبح ٤ بجے میں اپنے گھر پہنچا.اس کے بعد ٣ بار اور کیا ہم نے.اس دن بعد مجھے ایسا چسکا لگا کہ گانڈ چوت چاٹنا پیشاب پینا.میرا محبوب مشغلہ ہو گیا. اگر کوئی بھی لڑکی,آنٹی یا بھابھی ایسا سمبھوگ چاہتی ہے تو مجھے بتائے .حوصلہ افزائی کا انتظار کروں گا

گنی کی گانڈ کا اصلی مزا لیا

گنی کی گانڈ کا اصلی مزا لیا

نمتستے دوستو.میرا نام وکی ہے اور میں دہلی کا رہنے والا ہوں..آج میں آپ کو اپنی زندگی کی ایک انوکھی اور گندی کہانی بتانے جا رہا ہوں.بنا وقت گنوائے اب میں اصل بات بتاتا ہوں.

میں ٢٥ سال کا ایک نوجوان ہوں..میرا قد ٥ فٹ ١٠ انچ اور رنگ گندمی ہے.میں کافی سیدھا سادہ اور شرمیلا ہوں.شاید اس لئے گنی(میری پڑوسن) مجھ پر مہربان ہوئی…اس کا قد ٥ فٹ ٤ انچ، پستان ٣٤ کے اور گانڈ  ٣٨ کی ہے اس کی..کسی کی بھی نظر سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کیا سوچتا ہے..تو مجھے بھی گنی کو دیکھ کر تھوڑا شک ہؤا..ایک دن میں بازار سے گھر آ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ گنی بس اسٹاپ پہ کھڑی ہے..میں نے بہت سلیقے سے اسے اپنے ساتھ سواری کی پیشکش کی..کیونکہ وہ مجھے جانتی تھی اس لئے منع نہیں کیا اور پھٹپھٹی پہ بیٹھ گئی.راستے میں اس کے چوچک میری کمر سے لگ رہے تھے..مجھے تھوڑا عجیب سا لگ رہا تھا لیکن جو بھی تھا اچھا تھا.اس دن سے مجھے اسے چودنے کی خواہش ہوئی .میں نے اس دن اس کا فون نمبر لے لیا.

اور پھر کیا تھا ٹیلیفون پر گفتگو شروع.میں نے اسے شادی کی پیشکش کی تو وہ مان گئی.. ہماری فون پر گفتگو ہوتی رہے..اور میرا جنم دن نزدیک آ گیا سو میں نے اس سے تحفے کے بارے میں پوچھا تو وہ بولی جو تم چاہو لے لو.میرے اندر جنسی شہوت جاگ اٹھی اور میں نے اسے چودنے کی ٹھان لی.میں اپنا جنم دن منانے لئے اسے ایک ہوٹل میں لے گیا..وہاں کمرے میں جاتے ہی میں نے اسے بھینچ لیا اور بوسہ بازی کرنے لگا.وہ بھی گرم ہو گئی.میں نے دیر نہ کرتے ہوئے اس کے کپڑے نکالنے شروع کیے تو اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی .وہ صرف اپنی سرخ جالی والی چڈی میں میرے سامنے کھڑی تھی.غضب کا مست مال لگ رہی تھی.میں بھی ننگا ہو گیا اور اس سے چمٹ گیا.اس کے دودھ میرے سینے سے لگ رہے تھے.بالکل نرم تھے وہ.میں اس کے گورے گورے ممے چوسنے لگا انہیں کاٹنے لگا.انہیں نچوڑنے لگا.ایک الگ ہی مزا تھا انہیں دبانے اور چوسنے میں..

اب میں نے اس کے پستان چاٹنے شروع کر دیے۔ تھوڑی دیر بعد وہ بالکل لال ہو جکے تھے اور دھیرے دھیرے نیچے آتا گیا..اس کے پیٹ کو چومتے ہوئے اس کی جانگھوں تک پہنچا.اس کی چڈی سے تیکھی گندھ ا رہی تھی جو لوڑے کو اور بھڑکا رہی تھی.اس کی چڈی گیلی ہو گئی تھی..میں نے اپنا منہ اس کی چڈی پر رکھ دیا اور اس کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھوا لیں اور اس کی چوت کو چڈی کے اوپر سے چاٹنے لگ گیا.اس کا چوت رس دھیرے دھیرے میرے منہ کو نمکین کر رہا تھا.

اب مجھ سے رکا نہیں گیا اور میں نے اس کی چڈی نکالی.اس میں سے ایک دم چکنی چوت نکلی.ایک بھی بال نہیں تھا اس کی چوت پر شاید اسے بھی پتہ تھا کہ آج میں اسے خوب چودوں گا..میں پاگلوں کی طرح اسے چاٹنے لگا.وہ بھی بے قابو ہوئی جا رہی تھی..وہ بار بار کہہ رہی تھی کہ چاٹو وکی اندر تک جیبھ ڈال کے چاٹو..اس کی ایسی بات سن کر میں اور اندر تک جیبھ ڈالتا.اس کی چوت میں جیسے کوئی پانی کا فؤارہ پھوٹ آیا ہو.بنا ایک بھی بوند برباد کیے میں وہ سارا پیتا رہا.پھر میں نے اس کی چوت چاٹنے کے ساتھ اپنا لنڈ اس کے منہ میں ٹھونس دیا..

میں اس کی چوت چاٹ رہا تھا اور وہ میرا لنڈ ہلا رہی تھی.میں نے اس کی چوت میں انگلی ڈالی تو وہ لمبی لمبی سانس لینے لگی اور میرا لنڈ کس کے پکڑ لیا…اور اسے چوسنے لگی..میں اپنی انگلی سے اس کی چوت چود رہا تھا.وہ بھی پورے مزے لے رہی تھی..میری ناک اس کی گانڈ سونگھ رہی تھی اور جیبھ چوت کا رس چکھ رہی تھی..کیا امتزاج تھا دوستوں.میں تو جیسے جنت میں تھا.ایسا قریب ١٠ منٹ تک چلا اور میں نے اپنا مال اس کے منہ میں چھوڑ دیا..اس سے وہ پیا نہیں گیا تو اس نے وہ سب وہیں فرش پے تھوک دیا..پر میرا من شانت نہیں ہو رہا تھا میں نے اس کی چوت چاٹتے ہوئے اس کی گانڈ میں دھیرے دھیرے انگلی ڈالنی شروع کی.اس کی گانڈ بہت تنگ تھی وہ درد سے کراہ اٹھی.

میں نے اسے تھوڑا شانت کیا اور انگلی پہ تھوک لگا کے گانڈ میں ڈالنے لگا.بالکل گرم تھی وہ اندر سے.جیسے ہی میں نے پوری انگلی ڈالی وہ اندر اس کی ٹٹی سے ٹکرائی.مجھے نہیں پتہ رہا میں کیا کر رہا ہوں پر مدہوش تھا میں.میں انگلی اندر گھمانے لگا اور جب باہر نکالی تو اس پہ ٹٹی لگی تھی.میں نے ترنت اپنے منہ میں وہ انگلی ڈالی اور اسے چاٹنے لگا.بہت سؤادشت تھی یارو وہ.اور اس کی مہک تو پاگل کر دینے والی تھی.میں نے پھر سے انگلی ڈالی تو وہ منع کرنے لگی پر میں کہاں ماننے والا تھا میں نے ڈال ہی دی.اور اس سے کہا کہ وہ گانڈ کو زور لگا کے کھولے جیسے ہگتے سمے کھولتی ہے تو درد نہیں ہو گا وہ مان گئی اور زور لگانے لگی..
وہ منع کرتی رہی اور میں اسے سمجھاتا رہا کہ کچھ نہیں ہو گا.مجھے اچھا لگ رہا تھا سو میری خاطر اس نے زور لگایا اور اس کا پاد نکل گیا اس کی خوشبو سیدھی میری ناک میں گئی میں اور بھڑک گیا اس نے اور زور لگایا تو گرم گرم بدبو دار گو سیدھا میرے منہ میں آ گیا.اس نے ایک ہی جھٹکے میں میرا پورا منہ بھر دیا میں اسے چبا چبا کر کھانے لگا..

میں نے اس کے کولہوں پہ بھی گو تھوپ دیا اور کھانے لگا..مجھے پیاس لگی تو میں نے اس سے پانی مانگا پر اس نے کہا ٹٹی کھائی ہے تو میرا موت بھی پی لو.میں حیران ہو گیا ایسا سن کر.اب وہ بھی یہ سب دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تھی ..پورا کمرہ اس کی ٹٹی کی مہک سے بھر گیا تھا.میں ترنت اس کی چوت کے نیچے منہ کھول کے بیٹھ گیا.اس نے گرم دھار سیدھی میری منہ میں ماری..میں سارا پی گیا اور اسی سے میں نے منہ بھی دھویا..

دوستو اس کے بعد میں نے کیسے اسے پٹخ پٹخ کر چودا، یہ پھر کبھی اور بتاؤں گا۔ مجھے دلی والیوں کا گو موت بہت پسند ہے۔ ضرورت پڑے تو مجھ سے رابطہ کریں۔

آنٹی کو ڈرا دھمکا کر چودا

آنٹی کو ڈرا دھمکا کر چودا

نمستے دوستو، میں ہوں رنڈی باز. ہم نے حال ہی میں تعلیمی وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے پڑوس میں عارضی میں نقل مکانی کی تھی جہاں مجھے کمپیوٹر استعمال کرنے کی بھی سہولت تھی۔ ہمارے  بازو میں میرے پتا جی کے خاص دوست کا بیٹا اور اس کا پریوار رہتا تھا. انوپ ,انو اور ایک سال کا بچہ نیل. تھا ہماری اچھی جان پہچان کے کارن ہمارا میل جول کافی اچھا ہو گیا تھا میں انو کو آنٹی کہتا تو وہ کہتی کہ مجھے آنٹی مت کہو مجھے تم دیدی کہو تو میں کہتا کہ تم دیدی نہیں میری آنٹی ہو۔
 وہ ہنس کر بولتی ٹھیک ہے میں تمہاری آنٹی ہوں. ١ دن جب وہ کمرے میں اپنے کپڑے بدل رہی تھی تو میں اس کے کمرے میں بنا دستک دیے اندر گھس گیا۔ ایک دن تو چلائی اور دوسرے کمرے میں گھس گئی کیا مست پستان تھے اس کے۔ میں تو دنگ رہ گیا لیکن کمرے سے باہر چلا آیا ۔ پھر میں ٢ دنوں تک اس کے گھر نہیں گیا
 انو میرے گھر آ کر میری ماں سے پوچھتی ہے کہ آپ کا بیٹا کہاں گیا تو میری ماتا جی نے کہا کہ وہ اپنے کمرے میں ہے لیکن ٢ دنوں سے وہ باہر ہی نہیں آیا ہے پتہ نہیں کیوں چھپا بیٹھا ہے
 یہ سن کر انو میرے کمرے میں آ گئی اور کہنے لگی کہ اس دن یہ سب تو غلطی سے ہو گیا تھا کوئی بات نہیں تم سے بھول نہیں ہوئی تم ہمیشہ کی طرح اندر آ گئے۔ مجھے بھی کمرہ اندر سے بند کرنا چاہئیے تھا لیکن خیر کوئی بات نہیں۔ 
میں نے کہا کیا واقعئی آپ ناراض نہیں ہیں تو وہ بولی کہ نہیں ہوں تو میں خوش ہو گیا اور اپنی کتابیں اٹھا کر اس کے ساتھ ہی اس کے گھر چلا گیا.
 میرے امتحانات کے کارن میں رات کو اس کے گھر پر ہی پڑھتا تھا اور انو بھی میرا خیال رکھتی تھی لیکن اسے میرے امتحان کے بارے میں پتہ نہیں تھا ۔ میں جب بھی اس کے گھر آتا تو بنا دستک دیے ہی اندر چلا جاتا لیکن ١ دن جب میں امتحان دینے کے لئے گیا تو پرچہ پھوٹ جانے کے کارن میں دوپہر کو ١ بجے آ گیا کیونکہ امتحانات ملتوی کر دے گئے تھے۔ میں نے کمرے کی کھڑکی سے دیکھا کہ انو اپنے کسی جان آشنا سے چدوا رہی تھی مییں ایک دم چونک پڑا اور وہاں سے چلا گیا ..پر کچھ دیر بعد پھر لوٹ آیا تب بھی وہاں چددائی چالو تھی مجھے ١٠٠ فیصد یقین ہو گیا کہ چودنے والا شخص انوپ نہیں ہے ۔ میں گھر کے باہر دھیرے سے گیا اور گھنٹی بجا کر آواز لگائی کہ میں اندر آنا چاہتا ہوں ۔ آواز سن کر ان دونوں نے جلدی سے اپنے حلیے درست کر لیےاور کمرے میں بیٹھ کر ہنسنے بولنے لگے. پر مجھے سب پتہ تھا ۔ انو نے پوچھا کہ تم آج جلدی کیسے آ گئے تو میں نے اپنی پوری بات بتا دی. اگلے دن میری چھٹی تھی اس لئے میں انو کو بتائے بغیر اپنے گھر چلا گیا لیکن اسی مخصوص وقت پر واپس آ گیا تو کل ہی کی طرح چدائی جاری تھی۔ میں باہر نکل گیا اور ٣٠ منٹ بعد واپس آ گیا۔ آتے ہی میں نے گھنٹی بجائی لیکن دروازہ کھلا ہؤا تھا۔ میں اندر گیا تو سب کچھ کل کی طرح ہی تھا۔ میں چدائی کے مناظر فلم بندی کرنے لئے کسی مناسب موقعے کا انتظار کرنے لگا۔ میں انو کا کمپیوٹر بھی استعمال کرتا تھا اگلے دن پرچہ دینے کے پعد میں ایک کیمرا لے آیا جسے میں نے کمپیوٹر میں نصب کر دیا۔ یہ کیمرا عام نظروں سے اوجھل تھا لیکن اس کی نظر چدائی کے کمرے کے ایک بڑے حصے پر جمی رہتی تھی۔ بعد میں میں اپنے گھر چلا گیا لیکن ١ دن بعد جب میں واپس آیا تو انو اپنے یار کے ساتھ عیاشی میں مصروف تھی اور کیمرا خاموشی سے فلم بندی کر رہا تھا۔ میں بھی چپکے سے اپنے گھر لوٹ آیا ۔ اب میں نے انو کے یار کے بارے میں کھوج لگائی تو پتہ چلا کہ وہ اور کوئی نہیں انوپ کا چچیرا بھائی اشوک نکلا لیکن میں نے مزید جستجو نہیں کی۔ ایک دن میں نے اچانک چھاپا مارا اور ان دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ جب وہ دونوں سکھ کے ساگر میں ڈوبے ہوئے تھے تو میں ان کی خلوت گاہ میں ٹپک پڑا۔ اس وقت اشوک اور انو پورے جوش و خروش سے چدائی میں مگن تھے او میں یہ دیکھ کے دنگ رہ گیا. پھر میں کچھ سوچ کے مسکرا دیا اور کمرے کا دروازہ پورا کھول دیا تو وہ دونوں مجھے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے. انو کو میری اچانک آمد کی توقع نہیں تھی. اشوک نے ہڑبڑا کر اپنا لنڈ چوت سے باہر نکالا تو وہ سسک اٹھی اور پھر دونوں کھڑے ہو گئے. انو نے جھٹ سے ایک چادر اوڑھ لی اور اشوک بھی اپنے کپڑے اٹھا کے میرے قریب سے ہی بھاگتا چلا گیا.
 انو چادر کے اندر بالکل ننگی تھی اور مجھ سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی. میں اس کے پاس آ کر بولا, “یہ کیا ہو رہا تھا دیدی, ” انو بولی کہ میں بہت شرمندہ ہوں لیکن میں نے اس کی معذرت کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا, ” آپ کب سے یہ حرکتیں کر رہی ہیں؟”
 وہ کچھ نہ کہہ سکی لیکن میں مسکراتے ہوئے بولا ” انوپ بھائی تو میری زبانی یہ قصہ سن کر دنگ رہ جائیں گے کہ ان کی دھرم پتنی کسی غیر مرد کے ساتھ عیاشی کر رہی ہے. آپ کا پتی آپ کو چھوڑ بھی سکتا ہے اور آپ کی جان بھی لے سکتا ہے۔ اب کیا خیال ہے انو دیدی؟
 انو بولی نہیں تم اپنے بھائی کو کچھ مت بتانا۔ وہ میری زندگی برباد کر دیں گے. میں آئیندہ کبھی ایسا نہیں کروں گی.” 
ظاہر ہے وہ اپنا ہنستا بستا گھرانہ چھوڑنے کو تیار نہ تھی. میں نے اس کی التجا سن کر ایک شرط رکھی کہ وہ میرے ساتھ بھی یہی سب کچھ کرے. اس کے پاس میرے سامنے جھکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا. وہ مجھ سے نفرت کے باوچود مجھ سے سمبھوگ کرنے پر مجبور ہو گئی تھی. اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ ہر قیمت بر اپنا گھر بار بچائے گی. .پھر میں نے اس کی عبا اتاری اور اس کہا کہ اب وہ میرا لنڈ چوسے۔ وہ میرے لنڈ کو چوسنے لگی اور میں نے بھی اپنا منہ اس کی چدی ہوئی چوت سے بھڑا دیا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے اعضائے غلیظہ چوسنے اور چاٹنے لگے اور میں اس کی چوت کو چوسنے لگا ایسا ١٠ منٹ کرنے کے بعد میں نے اس کی چوت کو چھوڑ کر بوسے بازی شروع کر دی۔ ١٥ منٹ کے بعد میں نے اپنا ٨ انچ کا لنڈ نکال کر اس کی چوت پہ ٢ جھٹکوں میں پورا گھسا دیا وہ زور سے چلائی اس کے بعد پھر میں دھیمے دھیمے اس کے پستان چوسنے لگا , وہ اب بھی آنکھیں بند کرے ہوئے تھی تب میں نے اٹھ کر کمرے کا دروازہ لگایا اور اس کے پاس آ کر اس کو گود میں اٹھا کر بستر پہ سلایا. اب وہ میرے سامنے نیم برہنہ حالت میں تھی اور میں ایک ہاتھ سے اس کے ایک پستانوں کو دبا رہا تھا اور دوسرے پستانوں کو چوس رہا تھا اور دوسرا ہاتھ اوپر سے ہی اس کی چوت پر پھرا رہا تھا. اب وہ کراہنے لگی تھی “جلدی سے چود مادر چود” پر اس کی آنکھیں اب بھی بند تھیں . اب اس کے بدن پر صرف چڈی ہی بچی تھی اور میں اس کا بھرا ہؤا شریر دیکھ کر پاگل ہو رہا تھا. پھر میں نے اس کی چڈی بھی اتار دی اس کی چوت ایک دم صفا چٹ تھی جسے دیکھ کر میں پاگل ہو گیا اور میں اس کی چوت کو اپنے ہاتھ سے رگڑنے لگا.
 اب انو اپنے شریر کو موڑتے ہوئے سسکاریاں بھر رہی تھی. پھر میں نے اپنا لنڈ کو باہر نکالا اور اس کی چوت پر رکھ دیا اور ١ ہی جھٹکے میں پھر اندر ڈال دیا جس سے اس کو بہت درد ہؤا اور وہ چلائی” اوئی ماں, میری چوت میں مت جھڑنا۔ یہ پاپ ہے میں نے کہا سالی رانڈ جب تو دوسرے کے ساتھ چدوا سکتی ہے تو رانڈ کو چودنے میں کیوں پیچھے رہوں 
.انو نے کہا کہ اب مجھے بہت درد ہو رہا ہے مجھے چھوڑ دو درد ہوتا ہے اور میرا ١ مہینے کا حمل ہے.” تب مجھے پتہ چلا کہ وہ دوسری بار پیٹ سے ہے.
 اور پھر میں دھیمے دھیمے سے اسے چودنے لگا لیکن وہ پھر بھی بول رہی تھی ” مجھے بہت درد ہو رہا ہے کمینے، کیا میرے بچے کو مارنا چاہتا ہے؟.”
 انو کی چیخ نکل گئی اور وہ چلانے لگی “اوئی ماں۔ کوئی ہے جو مجھے بچائے؟ مادر چود،  تیرا لنڈ بہت موٹا ہے میں مر جاؤں گی” اور اس کی آنکھ سے آنسو نکلنے لگے اور وہ مجھے ہاتھ سے دھکا دے کر ہٹانے کی کوشش کرنے لگی پر میں نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے اور اپنے لنڈ کو تھوڑا سا باہر کر کے دوبارہ ایک زور دار دھکا لگایا تو میرا لنڈ پورا اندر چلا گیا. 
وہ روتے ہوئے بولی ” مادر چود، دیکھ میں حاملہ ہوں اب مجھے مت چود تیرا بہت موٹا ہے میری پھٹ جائے گی” 
تو میں نے کہا میرا کیا موٹا ہے اور تیری کیا پھٹ جائے گی, 
تو وہ بولی “تیرا لنڈ موٹا ہے میری چوت پھٹ جائے گی حرامی چھوڑ دے مجھے” 
تو میں نے کہا ” سالی خود تو سنتشت دوسرے کے ساتھ ہو گئی مادر چود کی اولاد اور میرے وقت پر نخرا دکھاتی ہے آج تیری چوت سچ میں پھاڑ ڈالوں گا” اور پھر میں اس کے اوپر لیٹ کر اپنے لنڈ کو تھوڑا سا باہر نکال کے پھر پوری طاقت سے اندر ڈالتے ہوئے اسے چودنے لگا.
 وہ روتے ہوئے چلائے جا رہی تھی کہ ” کتے, بہت درد ہو رہا ہے, میں مر جاؤں گی , اوئی ماں۔ اس مادر چود نے میرا بھرکس نکال دیا رے, اب میں کبھی بھی کسی سے نہیں چدواؤں گی”
 تو میں نے کہا ” سالی کمینی اب تو صرف مجھ سے ہی چدوائے گی ورنہ تو جانتی ہے نا
 وہ بولی تو میرے بھائی جیسا ہے مجھے جانے دے میں تیری ماں کو بول دوں گی تو نے میرے ساتھ ایسا کیا
 میں بولا میری شکایت کی تو تو گئی پھر میں انوپ بھائی سے تجھے ترنت طلاق دلوا دوں گا…
.وہ بولی میرے بہت درد ہو رہا ہے”
 پر میں چودنا چاہتا تھا,اس لئے میں نے انو کی بات نہیں مانی, اور انو اپنا سر ہلاتی اور روتی رہی. قریب 35-٤٠ منٹ بعد میں جھڑ گیا اور میں نے اپنا سارا مال اس کی چوت میں ڈال دیا. اور میں اب جب کبھی من کرتا ہے تو اس کو ڈرا دھمکا کر اس کی چدائی کرتا ہوں